کے پی، بلوچستان اور اندرون سندھ میں بجلی چوری کی شرح سب سے زیادہ
اسلام آباد: بجلی چوری قومی مسئلہ بن گیا، سرکاری دستاویز میں انکشاف ہوا ہے کہ بنوں، ڈی آئی خان، ٹانک اور شانگلہ میں 100 فیصد صارفین کنڈا ڈال کر قومی خزانہ کو چونا لگا رہے ہیں۔
بجلی چوری اور صارفین سے وصولیوں میں ناکامی ملکی معیشت کیلئے بڑا خطرہ قرار دے دیا گیا، سامنے آنے والی دستاویزات نے متعلقہ محکموں کا پول کھول دیا، افسوناک انکشافات سامنے آنے پر بجلی چوری کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا۔
وزارت توانائی اور متعلقہ محکموں کی غفلت اور افسران کی ملی بھگت سے ملک میں ماہانہ اربوں روپے کی بجلی چوری ہونے لگی، ملک بھر میں یومیہ ایک ارب 61 کروڑ اور ماہانہ 49 ارب 9 کروڑ روپے کی بجلی چوری ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
دستاویزات کے مطابق ملک بھر میں ماہانہ 49 ارب 9 کروڑ روپے کی بجلی چوری ہو رہی ہے، ایک سال کے دوران ڈسکوز نے 116 ارب 50 کروڑ یونٹس خریدے، 97 ارب 34 کروڑ یونٹس صارفین کو فروخت کئے اور 19 ارب 17 کروڑ یونٹس چوری، کنڈے اور تکنیکی نقصانات کی نذر ہو گئے۔
اس دھندے میں پشاور الیکٹرک سپلائی سرفہرست ہے، پیسکو میں 77 ارب روپے کے 5 ارب 70 کروڑ یونٹس چوری ہو گئے، خیبرپختونخوا کے چاروں اضلاع میں ایک سال سے کنڈے چل رہے ہیں۔
حیدرآباد میں بل جمع کرانے کی شرح 5 سے 6 فیصد اور ٹنڈو الہیار میں 9 فیصد تک کم ہوگئی، سندھ کے مختلف اضلاع میں بھی کنڈا کلچر بڑھ گیا۔
دستاویزات میں بتایا گیا کہ ٹنڈو محمد خان میں 15 فیصد، شہید بے نظیر آباد 21 فیصد، لاڑکانہ 60 فیصد اور سکھر میں 40 فیصد صارفین کنڈے ڈالتے ہیں، پشین، سبی، مکران، خضدار اور لورالائی میں 90 فیصد کنڈا کلچر ہے۔
دوسری جانب سیکرٹری پاور راشد لنگڑیال نے بجلی چوری کے خلاف کریک ڈاؤن کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ آسان نہیں ہے لیکن ناکامی کوئی آپشن نہیں، تمام چیف سیکرٹریز اور آئی جی پیز اس مہم میں شامل ہیں، فیلڈ فارمیشنز کو ہدایت کر دی کہ کسی کو بھی نہ بخشا جائے۔
ایک تبصرہ شائع کریں